پیارے بچو اپنے ابو کے ساتھ مل کر تحقیق کریں اور ایسے افراد کو تلاش کریں۔ ضروری نہیں جو بھیک مانگے صرف وہی مستحق ہو بلکہ مستحق وہ ہیں جو بھیک نہیں مانگتے ۔ آئیں! اس رمضان یہ مشن بنالیں کہ اس رمضان غریبوں و محتاجوں کی خوب مدد کرکے بھرپور ثواب کمائیں گے
جیسے جیسے رمضان گزر رہا تھا اور عید کا دن قریب آرہا تھا رمضان میاں کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ سال کے بارہ مہینوں میں ایک رمضان ہی کے مہینےمیں تو اسےکچھ سکون میسر آتا تھا۔ اب وہ بھی ختم ہونے کو تھا۔ کچھ سال پہلے تک اس کے حالات اتنے دگرگوں نہ تھے۔ وہ محنت مزدوری کرکے دن میں اتنے روپے کما لیتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ پورا ہو جاتا تھا لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے خرچے کچھ ایسے بڑھے کہ حالات نے تو جینا ہی مشکل کر دیا تھا۔ اب اس قلیل آمدنی میں پورے گھر کا خرچ چلانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اللہ کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کو گوارا نہ تھا۔ روزگار کے مواقع بھی کچھ بہتر نہ تھے اور اوپر سے مہنگائی کے طوفان نے تو سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔
ان حالات میں ایک مزدور کی گزر اوقات بہت مشکل ہوگئی تھی۔ گھر میں ایک بوڑھی ماں، بیوی اور تین بچے تھے، چھ افراد کے اخراجات کسی پہاڑ سے کم نہ تھے۔ بڑوں کو تو سمجھایا جاسکتا تھا لیکن بچے ماننے میں کہاں آتے تھے۔ ان کو تو بس ایک ہی دھن تھی کہ عید آرہی ہے اب نئے کپڑے بنیں گے گھر میں سویّاں تیار ہوں گی۔ اوروں کی طرح ہمیں بھی عیدی ملے گی۔رمضان شروع ہوا تو تھوڑا سکون ملاتھا۔ چلو اب ایک وقت ہی کےکھانے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ بیمار ماں نے بھی روزے رکھنے شروع کر دیئے کہ اس بہانے بیٹے کو کچھ سکون ملے گا۔ بیوی نے ان بچوں کو جن پر ابھی روزے فرض بھی نہ ہوئےتھے ثواب کا لالچ دے کر روزے رکھنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ اب صرف ایک وقت کے کھانے کا امکان باقی تھا۔ اس کے علاوہ بستی کے کھاتے پیتے لوگ بھی کبھی کبھی افطاری کے نام پر کچھ پکوان اور پھل وغیرہ بھیج دیتے جس سے کچھ گزر اوقات ہو جاتی تھی۔
رمضان میاں سوچ رہے تھے، عیدآنے کو ہےلیکن یہ مہینہ تو جیسے پر لگا کر اڑتا جا رہا تھا بس اب آخری چار دن باقی رہ گئےتھے۔ عیدآنے کو ہے۔ اب کیا ہوگا؟ بچوں کے کپڑے کہاں سے بنیں گے؟ گھر میں سویاں وغیرہ کا تو کوئی انتظام ہی نہیں ہے اور آگے پھر سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ کاش کہ ساری عمر رمضان کا ہی مہینہ ہوتا۔
پیارے بچو! یہ ایک کہانی نہیں ایسے کئی گھرانے ہمارے معاشرے میں ہیں جہاں دو وقت کی روٹی انہیں کھانے کو نہیں ملتی۔ آپ کے گھر میں بھی رمضان کا خوب استقبال ہورہا ہو گا۔ افطاری و سحری کی نت نئی ڈشیں تیار کرنے کی تیاریاں ہورہی ہوں گی۔ گھر میں وسیع راشن آچکا ہوگا۔ آپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوگا کہ رمضان کے بعد عید ہے جس کی تیاری بھی ابھی سے شروع ہوچکی ہوگی۔ مگر! ان سب کے باوجود اس رمضان میں ’’رمضان میاں‘‘ جیسے سفید پوش افراد کی مدد ضرور کریں تاکہ وہ بھی اپنے بچوں کیلئے سویاں اور نئے کپڑوں کا بندوبست کرسکیں۔ پیارے بچو اپنے ابو کے ساتھ مل کر تحقیق کریں اور ایسے افراد کو تلاش کریں۔ ضروری نہیں جو بھیک مانگے صرف وہی مستحق ہو بلکہ مستحق وہ ہیں جو بھیک نہیں مانگتے ۔ آئیں! اس رمضان یہ مشن بنالیں کہ اس رمضان غریبوں و محتاجوں کی خوب مدد کرکے بھرپور ثواب کمائیں گے اور رمضان میاں کی پریشانی دور کریں گے۔
(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
لالچی دربان اور بادشاہ کی ہنسی
ابن المغازل نامی ایک عرب بہت مذاقی تھا لوگوں کو بہت ہنساتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کوئی بھی ابن المغازل کی گفتگو سنتا تھا تو وہ اپنی ہنسی کو روک نہیں سکتا تھا۔ اس زمانہ میں شام کے بادشاہ المعتضد کی حکومت تھی بادشاہ کے ایک دربان نے ابن المغازل کی کہا کہ میں کوشش کرکے تجھے بادشاہ سلامت کے پاس لے جاتا ہوں ان کو جاکر یہ ٹوٹکے اور لطیفے سناکر خوش کرو لیکن ایک شرط پر اندر بھیجوں گا وہ یہ کہ جو آپ کو انعام ملے گا اس کا آدھا مجھے دو گے۔ ابن المغازل نے جب دربان کی زبان سے انعام کی بات سنی تو کہا کہ میں خود مسکین ہوں میں تجھے انعام کا چھٹا حصہ دوں گا لیکن دربان نے یہ بات نہ مانی۔ پھر اس نے اس کو چوتھے حصہ دینے کا وعدہ کیا لیکن دربان نے یہ بھی نہ مانا بالآخر ابن المغازل آدھے دینے پر راضی ہوئے۔ دربان بادشاہ کے پاس گئے اور اس کو ابن المغازل کی مزیدار باتوں کے بارے بتایا اور اجازت لے کر ابن المغازل کو بادشاہ کے دربار میں پہنچایا۔ بادشاہ کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی جو پڑھ رہا تھا کتاب کو بند کرکے ایک طرف رکھ کر گھور کردیکھا اور پوچھا کہ ابن المغازل تو ہے؟ اس نے کہا جی! میں ہوں۔ بادشاہ نے کہا تو لطیفے اور ٹوٹکے سناکر لوگوں کو ہنساتا ہے۔ کہا جی! سر میں ہنساتا ہوں اور پھر وہ مجھے انعام دیتے ہیں اور بچوں کا گزر کر لیتا ہوں بادشاہ نے کہا کہ اگر میں تیرے لطیفے سن کر ہنس پڑا تو تجھے پانچ سو درہم انعام دوں گا۔ لیکن اگر نہ ہنسا تو پھر؟ ابن المغازل نے کہا کہ پھر جو سزا آپ تجویز فرمائیں گے وہ قبول ہوگی۔ لیکن ابھی سے طے کرلیتے ہیں کہ اگر میں آپ کو ہنسا نہ سکا تو میری پیٹھ سے کپڑا اتارکر دس کوڑے مار دینا۔ بادشاہ کو یہ بات پسند آگئی اور کہا کہ یہ ٹھیک ہے۔ اب ابن المغازل عجیب لطیفے اور ٹوٹکے سنانا شروع ہوا بہت سارے سنائے حتیٰ کہ اس کے سر میں درد شروع ہوگیا اور اسے پسینہ آگیا وہاں موجود لوگ ہنس ہنس کر تھک گئے لیکن بادشاہ کو مجال ہے کہ ہنسنا تو کیا مسکراہٹ بھی آئی ہو۔ بالآخر ابن المغازل نے کہا بادشاہ سلامت! میرا جو حال تھا وہ پیش کردیا اب میرے پاس کوئی لطیفہ وغیرہ نہیں ہے۔ میں نے آج تک آپ جیسا آدمی نہیں دیکھا اور آج میں نے شکست تسلیم کرلی ہے۔ بادشاہ نے کہا اور بھی سنانا ہے تو سنالے۔ ابن المغازل نے کہا میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ میرا ایک مطالبہ ہے وہ عرض کرتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کیا؟ ابن المغازل نے کہا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ نہ ہنسنے پر دس کوڑے سزا کے طور پر لگائے دئیے جائیں گے اب میرا مطالبہ یہ ہے کہ اس سزا کو دوگنا کریں۔ یہ سن کر بادشاہ کی زور سے ہنسی نکلی ہی تھی کہ اس نے اپنی ہنسی کو روک لیا۔ بالآخر ابن المغازل کا مطالبہ مانا گیا۔ جب اس کو ننگی پیٹھ کرکے کوڑے مارنے شروع کئے گئے تو بادشاہ نے سفارش کی کہ اس کو آہستہ کوڑے مارنا۔ جب دس کوڑے پورے ہوگئے تو اس نے بڑی چیخ کر کہا اب زیادہ کوڑے مجھے نہ مارو کیونکہ ایک آدمی کو اس سزا کا آدھا دینا ہے جس نے مجھ سے پہلے ہی وعدہ لیا تھا وہ دربان ہے جو دروازے کے باہر کھڑا ہے۔ اس نے وعدہ لیا تھا کہ مجھے اس دربار میں چھوڑا ہے یہ سن کر بادشاہ بہت ہنسا جب اس نے ہنسنا بند کردیا تو دربان کو اندر بلایا گیا تو اس وقت ابن المغازل نے اس کو کہا کہ اب اپنے پیٹھ سے کپڑے کو ہٹا اور تجھے بھی میرے انعام کا آدھا ملے گا۔ تیری کتنی میں نے منتیں کی تھیں کہ انعام کا چھٹا حصہ لے لینا یا چوتھا حصہ لے لینا لیکن تو نے میری ایک بھی نہ سنی اب انعام کا آدھا لے لے۔ یہ الفاظ سن کر بادشاہ کو اور زیادہ ہنسی آئی پھر بادشاہ نے ابن المغازل کو پانچ سو درہم انعام کے طور پر دئیے جس سے آدھا ابن المغازل نے وعدہ کے مطابق دربان کو دئیے۔ (نفحۃ العرب) (سلیم اللہ سومرو۔ کنڈیارو)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں